Featured Post

National Narrative Against Terrorism دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ تاریخی فتویٰ ’’پیغام پاکستان‘‘

National Narrative Against Terrorism دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ تاریخی فتویٰ ’’پیغام پاکستان‘‘ تمام مسالک ک...

Tuesday, December 16, 2014

How can State of Pakistan & people defeat Khwarij Takfiri Taliban Terrorists? حکومت پاکستان اور آ پ خوارجی طالبان دہشت گردوں کو کیسے شکست دے سکتے ہیں؟


تحریک طالبان پاکستان، خوارج ،تکفیری گروہ غلیظ ترین دہشت 
 گردی میں ملوث ہے اور اس حرام فعیل کے لیے قرآن حدیث کا غلط استمال ہے . تمام امت مسلمہ کے علماء ان پر حرام کا فتویٰ دے چکے ہیں . اب وقت ا گیا ہے کہ حکومت پاکستان کمیٹی بنانے کے بجاے  ان کے خلاف اور طالبان کے ہمدردوں کے خلاف جہاد کا اعلان کر دے . اسلامی نظریاتی کونسل کیوں خاموش ہے ؟ قرآن اور حدیث کی توہین طالبان سے زیادہ کون کر رہا ہے ؟ قرآن کی آیات اور احادیث سے غلط مطلب نکلنا تحریف ہے . جسے جھوٹے لوگ جھوٹ نبی ہونے دعوا کرتے ہیں ان پر مرتد کا فتویٰ لگتا ہے . 
طالبان اور ان کے حامیوں کے خلاف جہاد ایک مذہبی فریضہ ہے ، اخلاقی فریضہ ہے ، انسانی فریضہ ہے . جہاد صرف اسلامی حکومت آرڈر کر سکتی ہے ، کوئی گروپ ، گروہ ، افراد کو یہ حق نہیں . حکومت پاکستان اپنا مذہبی قانونی ، شرعی فریز ادا کرے .
میڈیا پر طالبان کا کوریج بند کریں . ان کی مدد حرام ہو ، حکومت جہاد فنڈ قائم کرے لوگ اس مینن عطیات جما کریں ٹیکس سے چھوٹ ہو ، جہاد فورس قائم کریں نوجوانوں کو تربیت دیں وہ سول میں سکول اور دوسری جگہوں کا دفع کریں ، فوج پولیس طالبان سے براہراست جنگ کرے . سول ڈیفنس کو فعال کریں .ریٹائر فوجیوں کی رضاکار جہاد فورس بنیں ان کو جدید اسلحہ دیں ، سول ایریا مینن استمال کریں فوج کے ریزرو کے طور پر .
میڈیا پر طالبان اور ان کے ہمدردوں کے خلاف جید  علماء، سرکاری سیاسی علماء نہیں اصلی علماء عوام کو فکری طور پر آگاہ کریں

.طلبان جو صیہونی ، ہندو اور امریکی سامراجی ایجنٹ ہیں انہوں نے آج پشاور میں سکول پیر بزدلانہ حملہ کر کہ معصوم بچوں کو شہید کر دیا . جو علماء . سیاست داں ، دانشور ان درندہ صفت لوگوں سے ہمدردی رکھتے ہیں اپنی آنکھیں دماغ کھول لیں اور ان اسلام اور مسمانوں کے دشمنوں کے خلاف جہاد کا اعلان جنگ کریں .
پاک آرمی نےآپریشن ضرب عذب سے  دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے اب ضرورت ہے کہ ان کو نظریاتی محاذ پر ان کی جھوٹی مکروہ حرام نظریہ کو عوام کے سامنے پیش کریں .اپ ایسا کر سکتے ہیں .
میڈیا جرات پیدا کرے اور درج زائل قرآن کی آیات اردو ، پشتو ترجمہ کے ساتھ TV پر دکھائیں تا کہ عوام ان کا بھیانک اصلی مکروہ چہرہ پہچان لیں .
 مگر میڈیا ایسا نہیں کرے گا ، بزدل کا رو باری لوگوں کا دین ایمان پیسہ ہے ، زبانی جمع خرچ صرف ....
ہمارے ساتھ قرآن و سنت ہے یہ بہت واضح ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کو مارنے نہیں ہونا چاہئے.
وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ
اور کسی جان کو جس کا مارنا اللہ نے حرام کردیا ہے ہرگز ناحق قتل نہ کرنا
You shall not kill any person - for GOD has made life sacred - except in the course of justice(Quran;17:33)
وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّـهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا
اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لئے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے
And whoso slays a believer intentionally, his reward shall be Hell wherein he shall abide. And ALLAH shall be wroth with him and shall curse him and shall prepare for him a great punishment.(Quran;4:93)
وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۗ
فتنہ قتل سے بھی بڑا گناه ہے
"tumult and oppression are worse than slaughter.."[Qur'an;2:217]
وَالَّذِينَ كَفَرُواْ وَكَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا أُوْلَـئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ
Those who reject Faith and deny our Ayats will be companions of Fire in the Hereafter.(Quran;5:10, also in 7:10)
اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ "جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی" مگر اُن کا حال یہ ہے کہ ہمارے رسول پے در پے ان کے پاس کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے پھر بھی ان میں بکثرت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں. جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں اُن کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں، یا سولی پر چڑھائے جائیں، یا اُن کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، یا وہ جلا وطن کر دیے جائیں، یہ ذلت و رسوائی تو اُن کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں اُن کے لیے اس سے بڑی سزا ہے
5: 31-32 سورة المائدة
إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ
یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے
Verily, the worst of all creatures in the sight of God are those deaf, those dumb people who do not use their intellect.(Quran;8:22)
وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ
اور کسی جان کو جس کا مارنا اللہ نے حرام کردیا ہے ہرگز ناحق قتل نہ کرنا
You shall not kill any person - for GOD has made life sacred - except in the course of justice(Quran;17:33)
وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّـهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا
اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لئے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے
And whoso slays a believer intentionally, his reward shall be Hell wherein he shall abide. And ALLAH shall be wroth with him and shall curse him and shall prepare for him a great punishment.(Quran;4:93)
وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۗ
فتنہ قتل سے بھی بڑا گناه ہے
"tumult and oppression are worse than slaughter.."[Qur'an;2:217]
أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا اس لیے اُن کے سارے اعمال ضائع ہو گئے، قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے
"They are those who deny the Ayat of their Lord and the Meeting with Him (in the Hereafter). So their works are in vain, and on the Day of Resurrection, We shall not give them any weight.(Quran;18:105)
  میڈیا جرات  کرے  قرآن کی آیات اردو ، پشتو ترجمہ کے ساتھ TV پر دکھائیں عوام ان کا بھیانک چہرہ پہچان 
  Media to display translation of Quranic verses against Terrorism in urdu, 
Pashto repeatedly  
?How can YOU can defeat Terrorists? 
 آ پ خوارجی طالبان دہشت گردوں کو کیسے شکست دے سکتے ہیں؟     

Saturday, December 6, 2014

DAESH, ISIS, داعش Not Islamic


ایک سوال جو آج کل پاکستان میں بہت زیادہ پوچھا جا رہا ہے، وہ شدت پسند مسلح تنظیم داعش کے بارے میں ہے۔ عسکریت پسندی میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ موضوع بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ عالمی میڈیا میں بھی اس حوالے سے رپورٹس شائع ہوتی رہتی ہیں۔ رہی سہی کسر کراچی، پشاور اور پنجاب کے بعض شہروں میں داعش کی جانب سے وال چاکنگ نے پوری کر دی۔ اس سوال کا جواب کھوجنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم داعش کے پس منظر کا جائزہ لے لیں کہ یہ نئی تنظیم آخر کہاں سے وارد ہوئی؟
داعش یعنی د ا ع ش دراصل چار عربی الفاظ دولت اسلامیہ عراق شام (الدولت الاسلامیہ فی العراق والشام)کا مخفف ہے۔ اس کا یہ نام تو سال ڈیڑھ سال پرانا ہے، مگر کوئی دس گیارہ سال پہلے اس کی بنیاد عراق کی سنی تکون (تکرت، فلوجہ، سماویہ وغیرہ) کے شدت پسند سنی مسلم جنگجوئوںنے رکھی۔ ابومصعب الزرقاوی عراق میں القاعدہ کے مشہور کمانڈر تھے۔ اردنی نژاد الزرقاوی ایک گروپ جماعتہ التوحید و الجہاد کے قائد تھے۔ جب امریکہ نے عراق پر 2003ء میں حملہ کیا اور اس کے ردعمل میں مسلح جدوجہد شروع ہوئی‘ تو صدام حسین کی بعث پارٹی اور القاعدہ کے جنگجوئوں نے آپس میں ہاتھ ملا لئے اور مشترکہ جدوجہد شروع کی۔ ابو مصعب الزرقاوی نے اپنے سخت گیر سلفی گروپ کا نام بدل کر تنظیم قاعدہ الجہاد فی بلادالرافدین رکھ دیا۔ یہ القاعدہ کا عراق چیپٹر تھا۔ الزرقاوی بڑے مستعد اور متحرک کمانڈر تھے۔ امریکی فوج کو انہوں نے خاصا ٹف ٹائم دیا؛ تاہم ان کے شدت پسندانہ اور تکفیری مسلکی نظریات کی بنا پر خاصے مسائل بھی پیدا ہوئے۔ عراق میں بعض ایسی کارروائیاں ہوئیں، جن کے بارے میں القاعدہ کی اعلیٰ قیادت کو تحفظات پیدا ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ شیخ اسامہ بن لادن بھی الزرقاوی کی شدت پسندی سے نالاں تھے۔ بعض حلقے تو یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ انہوں نے عراق میں مسلکی بنیادوں پر شدت پسندانہ حملے روکنے کی بھی کوشش کی۔
ابو مصعب الزرقاوی کا نام 2004 ء میں عالمی میڈیا میں آیا، جب ایک آپریشن کے دوران الزرقاوی کا ایک ریکارڈ شدہ پیغام پکڑا گیا، جس میں القاعدہ عراقی کی حکمت عملی اور ان کی تکفیری فکر کی جھلک ملتی تھی۔ انہی دنوں عسکریت پسندی پر لکھتے ہوئے الزرقاوی کا نام میری نظر سے گزرا، کچھ تحقیق کی تو دلچسپ معلومات ملیں۔ اس پر 2004ء کے وسط میں ایک کالم اسی حوالے سے لکھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک ساتھی نے کالم پڑھ کر تبصرہ کیا کہ آپ نے عراقی عسکریت پسندی کے ایک اہم کردار کو اردو اخبارات میں متعارف کرایا ہے، لگتا ہے کہ یہ مشہور ہو گا۔ الزرقاوی بطور کمانڈر بہت مشہور ہوئے، حتیٰ کہ دو برس بعد وہ ایک امریکی حملے میں ہلاک ہوئے۔ ان دنوں اطلاعات ملیں کہ ان کے بارے میں اطلاع اردنی انٹیلی جنس ذرائع نے فراہم کی تھیں۔ الزرقاوی کی فکر سے ہمدردی رکھنے والے بعض حلقوں نے ایک دو شدت پسندانہ ویب سائٹس پر یہ الزام بھی لگایا کہ زرقاوی کی اپنی تنظیم کے اندر سے مخبری ہوئی اور ان کی سرکشی سے نالاں لوگ انہیں سائیڈ میں کرنا چاہتے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
الزرقاوی کے بعد ان کے ساتھیوں نے (2006ء میں) دوسرے عراقی سنی گروپوں کے ساتھ مل کر مجاہدین شوریٰ کونسل کی بنیاد رکھی۔ عراق کے مشہور سُنی صوبے الانبار اور بعض دوسرے علاقوں میں اس پلیٹ فارم سے امریکی فوج کے خلاف بڑی سخت اور شدید مزاحمت کی گئی۔ اگلے چھ سات برسوں تک یہ اپنے ایک خاص دائرہ اختیار میں نبرد آزما رہے۔ یہ گروپس خود کو آئی ایس آئی ایس (اسلامک سٹیٹ آف عراق یا دولت العراق الاسلامیہ) قرار دیتے تھے۔ ابو عبداللہ رشید البغدادی اور ان کے بعد ابو ایوب المصری اس کے سربراہ تھے۔ جب امریکی حملوں میں یہ مارے گئے تو پھر ابوبکرالبغدادی نئے امیر بنے۔ ادھر جب عرب سپرنگ کے دوران شام میں بشارالاسد حکومت کے خلاف عوامی بغاوت شروع ہوئی، جس نے بتدریج مسلح مزاحمت کی شکل اختیار کر لی تو بعض ہمسایہ ممالک نے شامی حکومت کی حمایت کی اور کچھ نے شامی باغیوں یا شامی اپوزیشن کا ساتھ دیا۔ شورش بڑھتی گئی، شامی حکومت کے ہاتھ سے بعض علاقے نکل گئے، بعض دور افتادہ علاقوں پر حکومتی کنٹرول قائم رکھنا ممکن بھی نہ رہ سکا۔ یہ صورت حال شدت پسند گروپوں کے لئے نہایت سازگار تھی۔ القاعدہ نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور شدت پسند سلفی سوچ رکھنے والے زرقاوی کے ہم خیال گروپ بھی مضبوط ہوئے۔ دولت العراق الاسلامیہ نے بھی اپنے ہاتھ پیر پھیلائے اور اسے دولت العراق الاسلامیہ والشام یعنی داعش یا آئی ایس آئی ایس کا نام دے دیا۔ شام کے کچھ علاقوں پر ان کا کنٹرول قائم ہوا اور پھر جنوبی عراق کے بعض علاقوں میں بھی انہوں نے تیزی سے اپنا کنٹرول مضبوط کیا۔ اس دوران حکمت عملی کے فرق یا پھر شدت پسند تکفیری خیالات کی بنا پر داعش کے لوگوں اور القاعدہ کے مابین شدید اختلافات پیدا ہو گئے۔ چند ماہ تک یہ صورتحال چلتی رہی۔ رواں سال کے اوائل میں القاعدہ نے باضابطہ طور پر داعش کے ساتھ اپنا تعلق ختم کرتے ہوئے‘ اسے ڈس اون کر دیا، مگر اس سے داعش پر کوئی خاص فرق نہ پڑا۔ داعش کے جنگجوئوں نے اچانک ہی ایک نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ موصل اور بعض دوسرے عراقی شہروں پر حملہ کیا اور انہیں غیرمعمولی کامیابی حاصل ہوئی۔ جنوبی عراقی شہر، شام کے ساتھ سرحدی قصبے اور عراقی سرحد کے دوسری طرف کچھ شامی علاقہ داعش کے کنٹرول میں آ گیا۔ داعش نے اس صورتحال سے نفسیاتی فائدہ اٹھایا اور دولتہ الاسلامیہ فی العراق و الشام سے اگلا قدم اٹھاتے ہوئے خلافت قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ داعش کے امیر ابوبکر البغدادی کو خلیفہ کا درجہ دے دیا گیا۔ یہ معلوم نہیں کہ خلیفہ کا انتخاب کیسے کیا گیا، مگر داعش کے جنگجوئوں نے ان کی بیعت کر لی اور نئے ''خلیفہ‘‘ کا ایک ویڈیو پیغام بھی جاری کر دیا گیا، جس میں انہوں نے دنیا بھر کے جنگجوئوں سے خلافت کو تسلیم کرنے اور اس کی حمایت کرنے کی اپیل کی۔ البغدادی کی اس اپیل کا مغربی دنیا کے شدت پسند عناصر نے جواب دیا۔ عالمی میڈیا کی اپنی اطلاعات کے مطابق امریکہ اور یورپ سے سینکڑوں لوگ لڑائی لڑنے عراق اور شام پہنچے ہیں، جن میں بعض خواتین بھی شامل ہیں۔
داعش کے جنگجوئوں نے شروع شروع میں اپنی ہیبت بٹھانے کے لئے مخالفین کے قتل و غارت کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بڑے جوش و خروش سے جاری کیں۔ ان ویڈیوز میں داعش کے لڑاکے اپنے مخالفوں کو بے دریغ گولیوں کا نشانہ بنا اور ذبح کر رہے ہیں۔ دو امریکی مغویوں کو بھی اسی انداز میں قتل کیا گیا۔ داعش کے امیج کو اس سفاکی اور بربریت سے شدید دھچکا پہنچا۔ بعد میں انہوں نے حکمت عملی قدرے بدلی اور سوشل میڈیا پر بچوں کے ساتھ کھیلتے، ان میں مٹھائیاں بانٹتے، سکولوں میں تعلیم دیتے، فٹ بال کھیلتے تصاویر اور ویڈیوز بھی جاری کی جاتی رہیں، مگر داعش کا جو ایک خاص قسم کا خونی اور انتہائی سخت گیر امیج بن چکا تھا، اس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ داعش کے سپانسرز کے بارے میں مختلف تھیوریز موجود ہیں، کچھ سازشی مفروضے بھی گردش کر رہے ہیں۔ بعض لوگ امریکہ کو داعش کا پہلا سپانسر قرار دیتے ہیں، کچھ بعض عرب ممالک پر الزام لگاتے ہیں۔ عملی صورتحال البتہ یہ ہے کہ داعش سے اس وقت ہر کوئی کسی نہ کسی حد تک خوفزدہ ہے۔ امریکیوں کو خطرہ ہے کہ یہ تنظیم کہیں مشرق وسطیٰ میں ان کے روڈ میپ کو نقصان نہ پہنچا دے۔ داعش کس حد تک اپنا وجود برقرار رکھ پائے گی، عراق اور شام میں جو علاقہ اس کے کنٹرول میں ہے، وہ کب تک رہ پاتا ہے... یہ سب ایسے سوالات ہیں، جن کے جواب کسی کے پاس نہیں۔ ہمارا سوال مگر یہ تھا کہ کیا داعش پاکستان میں آ چکی ہے یا اس کے آنے کا کس قدر خطرہ ہے؟۔ اس پر انشااللہ اگلی نشست میں بات ہو گی۔

Aamir Hashim Khakwani
Dunya.com.pk

Sunday, October 26, 2014

ISIS claims about slavery in Islam debunked


  1. Desperate plight of Yazidi woman sold into sex slavery by ISIS

    www.dailymail.co.uk/.../i-ve-raped-30-times-s-not-lun...
    5 days ago
    A young Yazidi woman forced into sex slavery by the Islamic State begged the West to bomb the brothel where ...
The Holy Qur’an does not even once use the words ‘Sab-i’ or ‘Riqq’ (Arabic for slavery). Instead, it uses derivatives of the word ‘asr’ which means taking someone captive. The Qur’an never says that the captives could be kept for ever as slaves (33:26, 76:8, 8:67, 8:70 and 2:85). In one of these verses, it offers solace to the captive by saying that God willing his condition will change for the better (8:70). In another verse, the Quran says that believers are those who though themselves hungry feed captives (76:8).

Various derivatives of the other word for slave (‘abd) have been used 275 times in the Qur’an but never in the context of ordering Muslims to enslave others. It is almost always used in the context of prayers or emphasizing that the faithfuls are slaves or servants of God.

It is correct that the Islamic Shariah (law) allows slavery but the only way someone may lose his/her natural freedom is if he is captured while physically and actually fighting in a battle against a Muslim army – in other words, he is a prisoner of war (PoW). There is no other way to deprive someone of his natural state of freedom. There is no instance where the Prophet (pbuh) or his immediate successors ever enslaved ordinary people who were not actually fighting a Muslim army. The Prophet used to give his armies clear instructions not to touch children, elderly men and women and people who are not involved in fighting.

While enslaving a person has been made extremely difficult in Islam, freeing a slave has been made extremely easy and is an act of piety. Once a non-Muslim combatant is taken captive, there are many ways in which he could secure his freedom. During the time of the Prophet (pbuh) one finds that such persons (always males) could be ransomed by their families or tribes or they themselves could secure their own freedom by teaching Muslims how to write or some other craft or by paying their masters an agreed amount of money. Islam has expressly forbidden taking free men as slaves.

While Islam makes it extremely difficult for someone to be enslaved, the door is wide open for faithfuls to free slaves. For example, a slave is to be freed as penance (kaffara) for some serious sins. Also, freeing slaves has been termed in Islam as one of the best deeds that please God.

We should keep in mind here that Islam allowed only a limited form of slavery to solve the issue of prisoners of wars. This took place during those pre-Medieval times when there was no international law and no UN or international treaties. In fact, even in those times, Islam followed reciprocity in such matters of international relations — i.e., if a non-Muslim nation followed a certain rule or norm in treatment of the residents of a Muslim country, its residents too were treated in the same way.

Today, in the presence of universally-accepted international laws and treaties, such laws will take precedence in international issues and in relations with foreign countries. And this is exactly what the 58 members-countries of Organisation of Islamic Cooperation (OIC) are doing today.

As such, ISIS by capturing ordinary residents of the territories it has overrun in Iraq and Syria is not only disobeying Islam, it is also violating the Islamic rule of reciprocity and respect of international laws. By flouting these clear norms, ISIS or any such group of thugs and self-proclaimed fighters will never be accepted in the comity of nations and will live their limited and short lives as pariahs and outcasts.

Zafarul-Islam Khan, senior Muslim scholar, who is an alumnus of Al-Azhar and Cairo universities and holds a PhD in Islamic Studies from the University of Manchester, said it is a lie to claim that Islam allows enslavement of ordinary men and women of conquered lands.
The Indian scholar, who is the head of the Delhi-based Institute of Islamic & Arab Studies and a core member of the International Union of Muslim Scholars, said this lie has been concocted by ISIS propagandists whose knowledge of Islam is highly doubtful. Dr Khan is the current president of the Indian Muslims apex body, the All India Muslim Majlis-e Mushawarat.

http://www.milligazette.com/news/11152-indian-scholar-debunks-isis-claims-about-slavery-in-islam

Sunday, October 19, 2014

Realignment of militants

FIVE Tehreek-i-Taliban Pakistan (TTP) commanders including the militant group’s spokesperson Shahidullah Shahid have announced their oath of allegiance to Abu Bakar al-Baghdadi, self-proclaimed caliph of the militant group Islamic State. The development may encourage other militant groups and commanders to do the same — particularly those who are now critically reviewing their oath of allegiance to Mullah Omar and association with Al Qaeda after the emergence of the Islamic State in the Middle East.

It appears as if the militant landscape of Pakistan is going to become more complex and threatening. As militant groups prepare to enter into another phase of ideologically and operationally transformed jihadi discourse, the implications for Pakistan’s internal security are severe.

The TTP commanders’ allegiance to the IS reflects internal rifts in the group mainly concerning leadership issues, and increasing differences among commanders in their political, ideological, tactical and operational perspectives. These internal differences have pushed these commanders towards what they perceive as an ideologically clearer and purified Islamist movement.

Surprisingly, the announcement of allegiance to the IS came from the Taliban commanders who constituted the operational core of the TTP. Many were expecting the newly established Jamaatul Ahrar, a breakaway faction of the TTP and strongly influenced by the IS, to be the first to declare an oath of allegiance to the latter. But it seems that the group is wavering between the Afghan Taliban-Al Qaeda alliance and the IS for future association.

It appears as if the militant landscape of Pakistan is going to become more complex.
By declaring allegiance to the IS, the Taliban commanders not only took the lead but also captured the title of Khorasan. Previously, leaders of Jamaatul Ahrar tried to tag themselves as Khorasani claiming they were the first troops of the prophesied Islamic state of Khorasan. They believe the time has come for the establishment of an Islamic state in this region comprising some parts of Central Asia, and Iran, Pakistan and Afghanistan.

However it would be very difficult for Jamaatul Ahrar to maintain relations with Al Qaeda and IS at the same time, while remaining loyal to Mullah Omar. The defecting five commanders have strong sectarian credentials and seem inspired by the IS’s sectarian designs. Their future behaviour is unclear as the IS has asked its followers to channelise their resources to Syria and Iraq, where the group first wants to consolidate its position.

On the other hand, the influence of the IS on militant groups in Pakistan and Afghanistan is a huge challenge for Al Qaeda. Analysts believe that the groups which were not happy with Al Qaeda’s operational strategies are more attracted to the IS. It was perhaps the main reason behind the establishment of Al Qaeda in South Asia. Growing realisation that operating through affiliates may not work in the future forced Al Qaeda to set up a separate branch in South Asia, which may help the terrorist group recruit people directly instead of relying on local associates.

Also, the IS factor will have an impact on the Afghan Taliban. The IS militants reject nationalism and consider the Afghan Taliban as part of the religious-nationalist movement. Those among the Afghan Taliban who have weak nationalist tendencies and are more inclined towards a ‘purified’ ideological goal can initiate such debate among their ranks. While defections cannot be ruled out, it is unclear how the IS will impact the Afghan Taliban movement, particularly when Mullah Omar wants to establish an Islamic emirate in Afghanistan while al-Baghdadi wants to extend his Islamic state to the whole world.

So far, pro-IS commanders, Al Qaeda, the Afghan Taliban and even the TTP leadership are trying to avoid confrontation and are just watching the situation. They realise that internal confrontations can trigger direct inter-militant clashes, such as those in Syria, and that these in turn can widen the existing ideological and political rift. For how long can they maintain this restraint, is an important question.

As far as the security implications of the IS are concerned, it has created a major survival challenge for the main militant actors who could now act to prove their operational credentials. Specifically Al Qaeda and TTP led by Fazlullah are facing immense pressure. They can launch attacks to prove that they are still strong and relevant, and have the ability to lead entire militant movements in the region.

At the same time, IS-inspired groups can launch movements in the IS style and try to capture towns and cities in the border regions of Afghanistan. But such attempts within Pakistan have fewer chances of success as the Pakistan military has gained control of most ungoverned territories in the tribal region.

In the short term, IS-inspired small groups and commanders can launch sectarian attacks. The TTP commanders who have declared allegiance to the IS have strong sectarian credentials and some of them come from the sectarian flashpoints of Hangu and Orakzai and Kurram agencies. Perpetrating sectarian violence will be an easier way for them to prove their loyalties to the IS. In this context, the coming weeks, especially the month of Muharram, will be sensitive. The security institutions have to be extra vigilant to prevent the threat of sectarian unrest in the country.

The most important question relates to the future of the TTP. No doubt IS inspiration has worsened the TTP’s internal crisis. While the group was already passing through an internal crisis over the issue of leadership, the military operation Zarb-i-Azb in North Waziristan has further weakened its organisational structure.

But we cannot predict the collapse of the TTP. The IS factor has provided new life to the group. The movement is undergoing an extensive transformation, but it has the potential to re-emerge as a stronger ideological militant movement, maybe under a different name.

However, at critical stages, names, tags and affiliations do not matter in militant movements. It is the four-pronged strength that matters,including ideological and political vision, operational capacity, effective propaganda and support base in society. It seems the TTP has not yet lost much.

By Muhammad Amir Rana,  The writer is a security analyst.
http://www.dawn.com/news/1138867/realignment-of-militants

The Taliban's Transformation from Ideology to Franchise by James Weir

After 13 years of conflict in Afghanistan, money has replaced ideology and vengeance as a reason for Taliban ties. National or Islamic goals no longer motivate foot soldiers under the organization's name, making "political Islamism" and "violent" or "Islamic extremism" ineffective terms. As international resources are poured into military and political efforts -- often in pursuit of the quick fix -- conflict participants have learned to make insecurity profitable. Today, in many provinces, the Taliban's greatest influence is as gatekeepers to a host of black market activities that both sustain the organization  and help recruit members. To combat the Taliban, these extra-legal funding sources must be addressed or risk not just failure, but the continued financing -- and success -- of insurgents.

In early 2014 we conducted research that examined violent extremism and Taliban networks with the hope of bridging differences between insurgent groups, community elders, and the Afghan government. In interviews with active, former, and imprisoned Taliban, tribal leaders, and government officials in Helmand and Herat provinces of Afghanistan a consensus emerged: joining the insurgency pays well, especially in a countryside marked by insecurity and economic stagnation. And more important than an insurgent salary, -- Taliban rarely mentioned, and most emphatically denied, ideological or political inspiration -- being associated with the Taliban enables quasi-independent profiteering from a diverse array of illegal activities.

Sources of Money

In Herat and Helmand provinces the five major sources of insurgent funding are the drug trade, protection money charged to international and government contracts, the Islamic taxes (Ushr and Zakat) applied to local businesses, smuggling, and collecting electric and telecommunications bills. With Afghanistan producing between 75 and 90 percent of the world's poppy -- Helmand province producing 48 percent of that share alone -- the Taliban's revenue stream reaches high and low; benefiting laborers, transporters, government officials, and businessmen. Helmand, unsurprisingly, is also among the most violent, insurgent-raddled provinces.

The United States has spent $7.5 billion dollars on drug eradication programs and estimated $104 billion dollars on development assistance in Afghanistan since 2001. Respondents explain the Taliban charge "protection money" to nearly all development programs or disrupt their implementation. The rates are said to vary between 10 percent and 20 percent and charges can occur at multiple stages. Similarly, charges levied to transportation contracts supplying NATO bases is a lucrative Taliban practice first documented in 2009 by Aram Rostom, and further detailed in June 2010 in Warlord, Inc., a report to the U.S. Congress. Nevertheless, in a July 2014 quarterly report to Congress, the Special Inspector General for Afghan Reconstruction (SIGAR) expressed dismay that the U.S. Army continues to contract organizations known to support the insurgency.

Three Transformations

The Taliban's history can be broken down to three periods associated with three basic motivations: ideologically inspired emergence in the mid-90s; resurgence in the early years after the NATO intervention driven by seeking retribution to grievances, both local and national; and transformation in recent years into a loose network utilizing an intimidating brand for extra-legal financial gain. Ideology and retribution still remain but grow less relevant to the movement as they expand into changing circumstances. Nevertheless, those who profit from the Taliban name are expected to accommodate the ideological or extremist fringe as a price of association.

Emergence and Ideology (1994-2001)

The Taliban rose to power two decades ago, vowing to end civil war and lawlessness and establish an "Islamic state." The war weary Afghan people, seeing the Taliban's quick success in subduing abusive warlords and marauding militias, initially welcomed the movement. Ideologically inspired by faith and nation, under the banner of the Islamic Emirate of Afghanistan, the Taliban held promise of a better future.

Over time most found the group's methods and dictates excessive. Women's rights, basic liberties, the economy, education, arts, and health care -- nearly all quality of life indicators -- suffered under the imposition of draconian order that was arbitrary, stifling, and often barbaric.

By the norms of modern governance, Taliban rule was a failure: the country grew internationally isolated and impoverished. Despite this, peace and rudimentary rule of law ensued for the first time since the Soviet invasion in 1979, establishing the Taliban's credibility amongst some Afghans.

Resurgence and Vengeance (2002-2008)

In response to 9/11, U.S. air power intervened in Afghanistan in late 2001 to support the northern resistance routing the Taliban from power. The movement quickly retreated, returning home or settling in Pakistan. At first they appeared to have given up their quest to govern before their reemergence, the reason for which remains murky.

The prevailing narrative for reemerging is that the Afghan government leaders, supported by international forces, provoked the retired Taliban and other traditional adversaries by conducting unwarranted house searches, arrests, and sometimes torture. Feeling threatened in their homes, many former Taliban joined others who felt persecuted or excluded and began to conspire -- all within safe harbor of Pakistan.

Meanwhile, high officials in the Afghan government -- often the same disreputable figures that the Taliban replaced in the mid-90s -- grew rich on foreign contracts and mishandled aid. Overtime, dissatisfaction with the Kabul government and international forces combined with local and personality based grievances inspired acts of violent retribution. By 2006 and 2007, Taliban attacks on government officials, tribal leaders, and international forces had substantially escalated.

Transformation and Franchise (2009-present)

As the insurgency intensified, so did the resources sent to quell it. Taliban benefited from the money pouring into the country by taxing the billions spent on transportation and development contracts. Meanwhile, smuggling and growing poppy, the Taliban's traditional funding sources, grew more lucrative in regions where the government and NATO lacked control.

With many former Taliban leaders killed, imprisoned, or hiding in Pakistan, a new generation of young men, unable to access the legal funding visibly flooding the country, joined for profit, respect, and even reprieve from the restrictions of village life and the labors of farming arid land. Interviews reveal many who once served with the Afghan government and ISAF, or wanted to, but later joined the insurgents due to threats to their family or unemployment. The older, more ideological Pakistan-based leadership is struggling to maintain disciplinary and financial control over groups active, often in isolation, across a border.

Small, mostly criminal networks brandish the potent, profitable Taliban brand without a cause beyond themselves and their small, tight-knit communities. Increasingly these groups send money back to the Quetta Shura -- instead of the other way around -- and are occasionally asked to facilitate more hardcore ideological actors or suicide bombers, in exchange for the opportunities of association.

Distracted by Terror

We find in the Taliban today an organization with parallels to the family focus of the Italian Mafioso, the crime interests of the Latin American drug cartels, and the predatory nature of the Afghan mujahedeen militias of the early 90s. The leaderships' call from their safe-haven in Pakistan for continued violence in the name of faith and country echo faintly in the Afghan countryside. As Najib Sharifi explains recently in Foreign Policy, it remains to be seen whether the calls from ISIS will resound differently -- the interviews we reference occurred before ISIS became a looming presence on the geopolitical landscape.

Nevertheless, in Afghanistan, near daily reports of senseless death and destruction distract from the pervasive, extra-legal practices that sustain participants and motivate association. Efforts to combat the insurgency must attack these black markets. In a future report, we examine the five major Taliban funding sources in Helmand and Herat. Past military or political efforts to combat the insurgency have overlooked and very often exacerbated the local economic circumstances that now drive ordinary rural Afghans into becoming insurgents. Rechanneling extra-legal activities into the legitimate economy will do more to weaken the Taliban and stabilize the country than negotiating or killing.

James Weir is a cultural anthropologist and independent researcher who has done work on Afghan life stories and tribal politics in the Afghanistan and Pakistan region.

Hekmatullah Azamy is research analyst at the Centre for Conflict and Peace Studies (CAPS), a Kabul-based independent and policy-oriented think-tank, where he conducts research on peace, security and development studies. These views are his own.

The Taliban's Transformation from Ideology to Franchise
by James Weir, Hekmatullah Azamy OCTOBER 17, 2014, southasia.foreignpolicy.com
Read in Urdu اردو مین پڑھین
http://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2014-10-19&edition=LHR&id=1343263_23754780

Monday, October 13, 2014

Islamic Thought & Terrorism انتہا پسندی اور ہمارا رد ِ عمل

Uگرچہ ترکی کے صدر اردوان داعش کے خلاف کارروائی کے لیے امریکی کولیشن فورسز کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں، لیکن داعش کے جنگجو عراق اور شام کو تاراج کرتے ہوئے اب ترکی کی سرحد پر کھڑے ہیں۔ اس دوران امریکی میڈیا میں بھی ایک تنازع جنم لے رہا ہے۔ گزشتہ دنوں بل مہر(Bill Maher) کے ایک بہت زیادہ دیکھے جانے والے شو میں شرکا کے درمیان گرما بحث چھڑ گئی۔ کچھ کا کہنا تھا کہ داعش کے نظریات مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیں جبکہ دوسروں نے اس کی سختی سے تردیدکرتے ہوئے کہا کہ اسلام کا ان قاتلوں اور لٹیروںسے کوئی تعلق نہیں۔ 
افسوس کہ جس دوران اسلامی دنیا کو شدید نظریاتی آزمائش کا سامنا ہے، مشرق ِو سطیٰ کے اسلامی حکمرانوںنے اس طرح چپ کی چادر تان لی جیسے ان کی ذرا سی لب کشائی سے داعش کے تیس ہزار سفاک جنگجو ان پر چڑھ دوڑیں گے۔وہ داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کے لیے امریکی کولیشن فورسز کے ساتھ تعاون تو کررہے ہیں لیکن اُنہیں مسلمانوں کی نظریاتی رہنمائی کی توفیق نہیں ہو رہی۔ یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ جب امت کو فکری رہنمائی کی ضرورت تھی تورہنمائی کے دعویدارغائب ہو گئے۔ یہ کتنی افسوس ناک صورت ِحال ہے کہ دہشت گردوں کے نظریات کو کھل کر غیر اسلامی قرار دینے والا بھی کوئی سامنے نہیں آرہا۔ 
امریکہ کے کچھ انتہا ئی سوچ رکھنے والے اسلام دشمن گروہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں اگر بل مہر اور سام ہیرس جیسے مذہب دشمن افراد اسلام کے خلاف جذبات کو ہوادے رہے ہیں۔ وہ ان داعش کے قاتلوں کے نظریات کو اسلامی نظریات ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اس دوران، جبکہ اسلام پر حملہ کیا جارہاہے، مسلم دنیا کی آواز کہاں گم ہوگئی ہے؟اسلامی دنیا کی متعدل آوازیں داعش کی مذمت کرتے ہوئے بل مہر جیسے افراد کا منہ بند کیوں نہیں کردیتیں؟جس دوران اسلامی دنیا سکوت کی تصویر بنی ہے، نیویارک ٹائمز کو سلام کہ جس نے مسلسل دو دن ایڈیٹوریل صفحے پر ایسے مضامین شائع کیے جن میں کالم نگاروںنے ثابت کیا تھا کہ داعش اور اسلام کے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں۔ 
اگرچہ بل مہر نے اسلام کو ایک مافیا قراردیا لیکن طمانیت کی بات یہ ہے کہ صدر اوباما نے اس بات پر زور دے کر کہا کہ داعش اور دیگر جنگجو گروہ اسلام کی نمائندگی نہیںکرتے۔ اکیڈیمی ایوارڈ یافتہ اداکار بن افلک(Ben Affleck) نے بن مہر کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان پر نسل پرستی کا الزام لگا یا اور کہا کہ وہ مسلمانوں کی دشمنی میں سوچ سمجھ سے محروم ہوچکے ہیں۔ رضا اسلان (Reza Aslan) جو کہ ایک ایرانی نژاد امریکی مصنف اور سکالر ہیں ، نے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ انتہا پسندوںکے نظریات کے مقابلے میں اسلام کے اصل نظریات اجاگر کریں۔ مسٹر اسلان نے اسلام دشمن عناصر کو انتہا پسند قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اصل اسلام کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے حالانکہ یہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے۔ 
پاکستان کے معاملات پر بہت قریب سے نظر رکھنے والے نیویارک ٹائمز کے کالم نگار نکولاس کرسٹوف بھی اس پروگرام میںبن مہر کے مہمان تھے ۔ اُنھوں نے بھی اسلام کا دفاع کرتے ہوئے بن افلک کی حمایت کی۔ بعد میں کالم لکھتے ہوئے مسٹر کرسٹوف نے کہا کہ اسلام عدم برداشت کا مذہب نہیں ، بلکہ یہ پہلا مذہب ہے جس نے عورتوں کا سماجی درجہ بلند کرتے ہوئے ان کے حقوق کا تحفظ کیا ۔ اُنھوں نے لکھا۔۔۔''تاریخ پر غیرجانبداری سے نظر رکھنے والا کوئی شخص بھی یہ آسانی سے جان سکتا ہے کہ اسلام تشدد پسند مذہب نہیں ہے۔ یہ عیسائی، نازی، کمیونسٹ ،ہندو، مائو اوربدھ مذہب کے ماننے والے ہیں جنھوں نے وسیع پیمانے پر قتل ِ عام کیا ۔‘‘اسلام کے دامن پر قتل ِعام کا کوئی دھبہ نہیں ہے۔ 
ہم مسٹر کرسٹوف کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اُنھوں نے جرات سے کام لے کر اسلام کا دفاع کیا۔ دوسری طرف مسلمان سکالرز کو یا تو اس کی توفیق نہیںیا پھر وہ اتنے بزدل ہیں کہ کھل کر اپنے عقیدے کا ہی دفاع نہیں کرسکتے۔ نکولاس کرسٹوفر نے یہ بھی کہا کہ اسلام فوبیا سے بچنے کی ضرورت ہے تاکہ مسلمان خود کو نسل پرستی کا شکار نہ سمجھیں۔ تیرھویں صدی میں فرانس میں پوپ کا یہ جملہ کون بھول سکتا ہے جب عیسائیوں کے مذہبی پیشوا نے بیس ہزار کتھار افراد(Cathar) ، جن میں آدمی بھی تھے اور عورتیں اور بچے بھی، کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ اُنھوںنے کہا۔۔۔''ان سب کو قتل کردو، اچھے برے کی تمیز خداخود کرلے گا۔‘‘کرسٹوف نے مزید لکھا کہ اسلام کو مسخ کرتے ہوئے اسے تشدد پسند اور تنگ نظر مذہب ثابت کرناخوفناک غلطی ہے۔ اُنھوںنے کہا کہ انتہا پسندوں کے خلاف مسلمان بھی کھڑے ہیں۔ اُنھوںنے ملالہ اور مختاراں مائی کا بھی حوالہ دیا۔ 
تاہم یہ تنازعہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ بن افلک اور کرسٹوف کی طرف سے اسلام کے دفاع نے فاکس نیوز اور اسلام دشمن نظریات رکھنے والے دیگر چینلز کو مشتعل کردیا۔ اُنھوںنے اسلام اور مسلمانوں پر تنقید کی توپوں کے دہانے وا کردیے۔ نائن الیون کے بعد بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ میں اُس وقت امریکہ میں ہی تھی اور میں نے وہ وقت دیکھا ہے جب ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد امریکی مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ ہوگیا تھا۔ایسا لگتا تھا کہ ہم قرون ِ وسطیٰ میں جی رہے ہیں۔ اتنی مذہبی تنگ نظری حالیہ تاریخ میں دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ اُس وقت رسول ِ اکرمﷺ کا فرمان ِ اقدس یاد آتا تھا۔۔۔''ایک وقت آئے گا جب تمھارے ہاتھوں میں مذہب دہکتے ہوئے کوئلوں یا سمندر کی لہروں کی طرح ہوجائے گا۔ ‘‘ ایسا لگتا تھا کہ امریکہ میں وہ وقت آگیا ہے۔ بہت سے انتہا پسند، جیسا کہ جیری فلویل اور بلی گراہم شعائر ِ اسلام پر حملے کررہے تھے۔ وہ اپنے پیروکاروں کو مسلمان شہریوں پر حملے کرنے پر اکسارہے تھے۔ 
آج تیرہ سال بعد ایک مرتبہ پھر داعش کے حوالے سے مسلمان امت آزمائش کا شکار ہے۔ آج ہم پر اغیار حملہ آور نہیں بلکہ مسلمانوں کے روپ میں ہی قاتلوں کا ایک ٹولہ عراق اور شام میں قتل وغارت کا بازار گرم کرتے ہوئے دیگر اسلامی ممالک کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آج کوئی صلیبی جنگ نہیں ہونے جارہی۔ ہمیں صرف یہ کرنا ہے کہ کنفیوژن سے بچتے ہوئے یک زبان ہوکر ان کی مذمت کرنی ہے اور اپنے عقیدے کا تحفظ کرنا ہے۔ دنیا دل سے جانتی ہے کہ اسلام تشدد پسند مذہب نہیں ہے، لیکن ہم کس تذبذب کا شکار ہیں؟ ہم آگے بڑھ کر دہشت گردی کے خلاف کیوں نہیں بولتے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج اسلام کا دفاع ایک اداکار اور ایک غیر مسلمان لکھاری کررہے ہیں جب کہ اسلامی دنیا نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ یہ بات ہم پاکستانیوں کو فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ داعش طالبان سے مختلف گروہ ہے۔ طالبان کے مقابلے میں عسکری قوت کام دے رہی ہے، لیکن داعش کے خلاف نظریات کی جنگ لڑنا فوج کا کام نہیں۔ اس کے لیے اہلِ فکر کو سامنے آنا پڑے گا۔ یہ سجدے میں گرنے کا نہیں، قیام کا وقت ہے۔ 
Anjum  Niaz

داعش کا خطرہ اورخطے کے سیاسی مفادات IS Threat in Middle East

اگست 1944ء کو روس کی سرخ فوج نے وارسا کے نزدیک زبردست اور طویل جنگ کے بعد حملہ آور جرمن فوج کو پیچھے دھکیل دیا۔ اس سے پہلے نازی فورسز کے پولینڈ پر قبضے کے بعد پولش فورسزاس امید پر کسی قدر مزاحمت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھیں کہ روسی کمک بس آنے ہی والی ہے۔کچھ مورخین کا خیال ہے کہ اُنہیں ایسا کرنے پر پولینڈ کے کمیونسٹوں نے کریملن کی ہدایت پر اکسایا تھا ، تاہم پولینڈ کی فورسز اور شہری کئی ہفتوں تک لڑتے ہوئے امید کرتے رہے کہ روسی مدد آن پہنچے گی، لیکن سرخ فوج وارسا سے باہر ہی رہی۔ پولش فورسز یقینا جرمن فائر پاور کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھیں، چنانچہ اُنہیں شدید نقصان اُٹھانا پڑا۔ تاہم جب پولش مزاحمت دم توڑ گئی تو سوویت فورسز نے جرمن فوج پر حملہ کیا اورزبردست جنگ کے بعد اُنہیں وہاںسے نکال دیا۔ سوویت فورسز کی پولینڈ کے ساتھ سفاکانہ بے حسی کی وجہ یہ تھی کہ سوویت یونین نہیں چاہتا تھا کہ وارسا میں قوم پرست اقتدار میں آئیں ۔ اس کی بجائے اُس نے انتظار کیا کہ جرمن فورسز قوم پرست قوتوں کا صفایا کردیں تاکہ جرمن انخلا کے بعد کمیونسٹ اقتدار پر قبضہ کرلیں۔
عراق کے جنوب میں آباد اہل تشیع اور شمال میں آباد کرد آبادی کے ساتھ 1990ء میںیہی کچھ ہوا۔ پہلی خلیجی جنگ میں صدام حسین کی عسکری قوت کو ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچانے کے بعد امریکی فورسز نے ہاتھ روک لیا اور صدام حسین کے مخالفین، جن میں غیر سنی گروہ تھے،، کی حوصلہ افزائی کی اور اُنہیں سراٹھانے کا موقع دیا۔ اگرچہ امریکی فورسز نے عراق پر نوفلائی زون قائم کیا ہوا تھا، لیکن صدام حسین نے زمینی دستے بھیج کر مخالفین کو بے رحمی سے کچل دیا۔ کردوں کے خلاف عراقی فورسز نے مبینہ طور پر زہریلی گیس استعمال کرتے ہوئے ہزاروں افراد کو ہلاک کردیا۔
آج جب داعش (دولت ِ اسلامیہ عراق و شام)، جسے آئی ایس آئی ایس بھی کہا جاتا ہے، کے جنگجووں نے پیش قدمی کرتے ہوئے شام کے شمالی علاقوں میں واقع کرد آبادی کے شہر کوبانی (Kobani) کا محاصرہ کررکھا ہے تو ترکی دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ داعش کے بھاری اسلحے سے لیس جنگجو شہر میں خون کی ندیاں بہانے کی دھمکیاںدے رہے ہیں، لیکن کردباشندے ، جن کے پاس ہتھیار وںکی کمی ہے، اپنی جگہ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ترک ٹینک اور سپاہی بمشکل ایک یا دو کلومیٹر کے فاصلے سے اس بڑی حد تک یک طرفہ جنگ کو دیکھنے والے ہیں۔ وہ اس قتل ِ عام کا اُسی طرح انتظار کریں گے جس طرح سوویت فورسز نے پولش قوم پرستوں کی تباہی تک جرمن افواج کو نہیں للکارا تھا۔
اگرچہ ہزاروں کرد باشندوں کے قتل ِ عام کو روکنے کے لیے عالمی دبائو میں اضافہ ہورہا ہے لیکن ترک صدر طیب اردوان مبہم بیانات دیتے ہوئے داعش مخالف کولیشن میں فعال کردار اداکرنے سے پہلے اپنے ایجنڈے کی تکمیل چاہتے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ شام کی سرحد کے قریب ایک بفر زون قائم کردیا جائے جس میں مہاجرین کو آباد کیا جائے۔اس کے علاوہ وہ داعش مخالف قوتوںسے یہ بھی یقین دہانی چاہتے ہیں کہ بشارالااسد کا تختہ الٹا جائے گا۔ تاہم کردوں کو ان مقاصد سے کوئی سروکار نہیں،وہ عراق میں اپنے کرد بھائیوںسے کہہ رہے ہیں کہ ان کو ہتھیار اور لڑاکا دستے دیے جائیں تاکہ وہ انتہا پسندوں کا مقابلہ کرسکیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس جنگ میں شامی حکومت ان کی حمایت کررہی ہے۔ چنانچہ وہ خوفزدہ ہیں کہ اگر مسٹر اسد کا تختہ الٹ دیا جائے تو ملک میں پیدا ہونے والے سیاسی خلاکو انتہا پسند پُر کرنے کیلئے موجود ہوںگے۔ اس طرح مسٹر اسد کا تختہ الٹنے سے انتہا پسند توانا ہوجائیںگے اور پھر ان کا لہو مزید ارزاں ہوجائے گا۔
اس دوران امریکہ ترکی پر دبائوڈال رہا ہے کہ وہ انہیں اپنے سرحدی علاقے میں موجود فضائی ٹھکانے استعمال کرنے کی اجازت دے تاکہ اس کے جہازوں کو کوبانی تک پہنچنے میں کم وقت لگے اور وہ محاصرے میں آئے ہوئے اس شہر کو بچاسکیں۔ اس پر ترک صدر ایک کشمکش میں ہیں ۔ ایک طرف ان پر تعاون کے لیے عالمی دبائوبڑھ رہاہے تو دوسری طرف وہ کرد خطرے کا بھی تدارک چاہتے ہیں۔ گزشتہ چند دنوںسے ترکی کے کرد آبادی والے قصبوں میں تصادم سے کم از کم چوبیس افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ مشتعل ہجوم نے سرکاری عمارات اور بسوں کو نذرِ آتش کردیا۔ طیب اردوان نے پُرتشدد احتجاج پر تنقید کرتے ہوئے اسے حکومت اور علیحدگی پسندوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی سازش قرار دیا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ ترکی میں رہنے والے کرد باشندے بے حد مشتعل ہیں کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ ترک صدر داعش کو جان بوجھ کر قتل ِعام کا موقع دے رہے ہیں۔ یہ تاثر اُس وقت مزید گہرا ہوگیا جب صحافیوںسے داعش اور کوبانی کے مستقبل پر بات کرتے ہوئے اُنھوںنے دی گارڈین کا حوالہ دے کر کہا کہ ''اُنہیں دیگر واقعات سے الگ کرکے دیکھنے کی بجائے سب کو مل کر ان سے نمٹنا چاہیے۔‘‘
تاہم ہر روز فرار ہوکر آنے والے کرد باشندے داعش کے جنگجووںکی دل دہلا دینے والی کہانیاں سنارہے ہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ کرد قصبوںکو گھیر کر بچوں کو ہلاک اور لڑکیوں کی اجتماعی آبروریزی کی جاتی ہے۔ اس پر دیگر ممالک میں رہنے والے کرد بھی مشتعل ہورہے ہیں۔اردوان اس لیے بھی کوبانی کو بچانے میں تامل سے کام لے رہے ہیں کیونکہ داعش کی پیش قدمی سے پہلے شامی کردوںنے خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاکر یہاں ایک خودمختار علاقہ قائم کرلیا تھا۔ ترکی کے مشرقی حصوںمیں کئی عشروںسے کردعلیحدگی کے لیے لڑرہے ہیں جبکہ ترک حکومت ان کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے کوئی قابل ِ قبول حل نکالنے کی کوشش میں ہے۔ اس پس منظر میں اردوان کو خطرہ ہے کہ اگر شام اور عراق کے کرد مل کر ایک خودمختار ریاست قائم کرلیتے ہیں تو اس سے ان کے ترک کزنوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور وہ اپنے مطالبات بڑھا دیںگے۔ داخلی سیاسی مسائل کے علاوہ اردوان ترکی کی خارجہ پالیسی کو بھی درست کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی '' اے کے پارٹی ‘‘کے طویل اقتدار کے پہلے چند برسوںکے دوران مسٹر اردوان نے ترکی کو خطے میں اہم مقام دلا دیا تھا۔ مغربی قوتوں کے نزدیک ترکی مشرق ِو سطیٰ اور سنٹرل ایشیا کے درمیان ایک پل کی طرح ہے۔ اس طرح سلطنتِ عثمانیہ کے دور کے خواب انقرہ کی آنکھوں میں تازہ ہو گئے۔ تاہم شام میں خونریزی بڑھنے سے اردوان کو احساس ہو اکہ وہ معاملات کو مکمل طور پر کنٹرول نہیں کرسکتے۔
اس دوران امریکی بھی اسد کو اقتدار سے ہٹانے کا ذکر تو کرتے رہتے ہیں لیکن وہ جانتے ہیں کہ اسدکو ہٹانے کے درپے داعش اس سے بھی بڑا دشمن ہے۔ چنانچہ دشمن کا دشمن اگر دوست نہیںتو بھی اتحادی تو بن ہی سکتا ہے۔ تاریخ خود کو دہرانے سے باز نہیں آتی۔ چند عشرے پہلے روز ویلٹ اور سر ونسٹن چرچل کے لیے سٹالن قابلِ قبول ہو گئے تھے کیونکہ دوسری طرف جرمن فورسز چڑھائی کر رہی تھیں۔ اس لیے آج لندن، واشنگٹن اور پیرس میں شام میں حکومت کی تبدیلی کی زیادہ بات نہیں ہوتی۔ درحقیقت آنے والے دنوں میں یہ خطہ بہت اہم واقعات کا گواہ بننے والا ہے۔ جس دوران امریکی کولیشن فورسز داعش کے خطرے کا تدارک کرنے کی کوشش میں ہیں، اسلامی دنیا دَم سادھے بیٹھی ہے۔
عرفان حسین